پاکستان کا سفر 1971 سے 2023

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: سدرہ ثاقب

اہل دانش تاریخ سے اور صاحب نظر لوگ دل کی آنکھ سے مستقبل کا حال جان لیتے ہیں آج کے پاکستان میں غربت اور مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے لوگ دو وقت کے کھانے سے بھی مجبور ہو چکے بلکہ کچھ لوگ تو فاقہ کشی پر مجبور ہیں اور ان کو رات کو بھوکا ہی سونا پڑتا ہے باپ دن بھر دھوپ میں جلتا ہے کہ بچوں کو رات کو دودھ پلا سکوں دوسری طرف پاکستان کا وہ طبقہ ہے جو ہر رات شراب و شباب کی محفلیں سجاتا ہے کئی اقسام کے پکوان بنوا کر ضائع کر دیتا ہے ملک ایک مگر طبقات دو یہی محرومیاں اور ناانصافیاں انقلاب کو جنم دیتی ہیں مداری اپنی بھوک مٹانے کے لیے بندر کو نچاتا ہے آج ہمارا بھی وہی حال ہے چند لوگوں کا پیٹ اور سکون پورا کرنے کے لیے عوام دن رات ایک کرتی ہے خود شائد پیٹ بھر کر کھانا کھائے یا نہ مگر انکے ٹیکس سے یہی طبقہ اپنا پیٹ اور تجوریاں بھر کر سوتا ہے مشرقی پاکستان جسے آج کی نسل بنگلہ دیش کے نام سے جانتی ہے کبھی ہمارا حصہ ہوا کرتا تھا جب بھی کوئی بنگالی مغربی پاکستان آتا تو لاہور کراچی کے لوگوں کو دیکھ کر حیران رہ جاتا کیونکہ اس وقت وہاں لوگ دو وقت کی روٹی پوری کرنے کے لئے انسانی سائیکل بن کر بن کر لوگوں کو سفر کروایا کرتے تھے ادھر ٹیکسیاں اور گاڑیاں دوڑا کرتیں وہ کہا کرتے تھے ہمیں کراچی کی سڑکوں سے پٹ سن جو وہاں کی سب سے بڑی فصل تھی کی خوشبو آتی ہے اور پاکستان اس پٹ سن کو دنیا بھر میں بیچ کر لاہور اور کراچی میں بلڈنگیں بنا رہا تھا اور مشرقی پاکستان کو اس کے حصے میں سے بھی ایک فیصد نہیں ملتا تھا آج کے مضمون میں تاریخ کو صحیح انداز میں پیش کرنے کی کوشش کروں گی 1970 میں پاکستان کی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات ہوئے مگر اسکے نتیجے میں ملک دو حصوں میں بٹ گیا مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ نے 160 اور مغربی پاکستان سے بھٹو کی پیپلز پارٹی نے 81 نشستیں جیتیں اصولی طور پر عوامی لیگ کی قطعی اکثریت کے مدنظر اقتدار شیخ مجیب الرحمٰن کو ملنا چاہئے تھا اس وقت کے صدر جنرل یحیٰی خان نے فروری 1971 میں قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں طلب کر لیا مگر بھٹو نے اسکی کھل کر مخالفت کی اور اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا بھٹو یحیٰی کا پیارا تھا اور وہ اپنے پیارے کی آنکھ میں آنسو نہیں دیکھ سکتا تھا ادھر محرومیوں اور غربٹ کے ڈیرے تھے لوگ کمزور اور بھوکے تھے شیخ مجیب نے ان محرومیوں کو ہوا دیتے ہوئے انمیں آزادی کی روح پھونک دی دوسری طرف بھارت نے مکتی باہنی جیسی تنظیمیں بنا کر شدت پسندی کو ہوا دی مشرقی پاکستان میں فسادات پھوٹ پڑے پاکستان کی افواج نے ان پر قابو پانے کے لئے آپریشن کیا اور شیخ مجیب کو گرفتار کر لیا گیا اسے تھپڑ مارے گئے اس نے اس وقت بھٹو سے کہہ دیا تھا کہ مجھ سے فارغ ہو کر یہ تمہیں بھی نہیں چھوڑیں گے قصہ مختصر مشرقی پاکستان تو فتح نہ ہوا بلکہ اسی ہزار سے زائد فوجی بھارت کی قید میں چلے گئے مسلمانوں کی تاریخ کی سب سے بڑی شکست سقوط ڈھاکہ کی شکل میں سامنے آئی اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کے نام سے الگ ملک بن گیااور وہ مشرقی پاکستان جو غربت اور محرومیوں میں گھرا ہوا تھا آج ترقی کے راستوں پر سرپٹ دوڑ رہا ہے شیخ مجیب الرحمٰن نے اس وقت تو تکلیف برداشت کر لی مگر اس کی اسکی آنے والی نسلیں مافیا اور پراپرٹی ڈیلرز سے ہمیشہ کے لئے آزاد ہو گئیں ہمیں ہمیشہ یہ پڑھایا گیا کہ مشرقی پاکستان میں بھارت نے حملہ کیا تھا اور پاکستان کی فوج تھوڑی تھی جسکی وجہ سے ہم شکست کھا گئے جو کہ سراسر جھوٹ ہے جو ان طاقتور طبقات نے اپنی آنا کو بچانے کے لئے گھڑا ہے کیونکہ شعور آنے کے بعد پتا چلا کی اس ملک سے دھوکا تو اس کے محافظوں نے کیا پھر ذوالفقار علی بھٹو کی باری آئی مارشل لاء کے دور میں اس معمولی الزام میں گرفتار کیا اور پھر قتل کے مقدمے میں اسے پھانسی دے دی گئی سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ مجھ پر اسکی پھانسی کے معاملے پر دباؤ تھا اور یہ ایک عدالتی قتل تھا عمران خان آج تاریخ کو دہرا رہا ہے کہ یہ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں جیل میں اور وہ صحیح کہہ رہا ہے کیونکہ عدالت سے انصاف نہ تو بھٹو کو ملا نہ صدام کو نہ ہی مرسی کو ان سب نے خود کو قانون کے حوالے کیا مگر واپس لاشیں ہی آئیں ہم نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا ہم آج بھی اقتدار اپنی مرضی کے بندے کو دینگے نہ کہ عوام کی مرضی سے منتخب نمائندے کو وقت بدل گیا مگر سوچ نہیں بدلی اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو یہی محرومیاں ایک اور بنگلہ دیش کو جنم دے سکتی ہیں آج ہم۔جو نا انصافی اور فرعونیت دیکھ رہے ہیں یہ آج کی بات نہیں صدیوں کا قصہ ہے کہ طاقتور انکار برداشت نہیں کرتا سیاست صرف سیاستدانوں کا کا کام ہے جب کبھی کوئی اور اس میں دخل دے گا تو پھر قوموں اور ملکوں کا وہی حال ہوگا جو آج ہمارا ہے غلامی ذہنی ہو یا جسمانی ایک دن ختم ہو جاتی ہے آج اگر قائد اعظم زندہ ہوتے اور الیکشن لڑنے کی کوشش کرتے تو مجھے یقین ہے کہ وہ بھی نا اہل ہو جاتے کیونکہ اہلیت اور عقل عوام نہیں مخصوص طبقات کے پاس ہے ان کے علاؤہ سب بےوقوف اور اندھے ہیں۔

Short URL: https://tinyurl.com/2orr8hed
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *